الثلاثاء، 11 سبتمبر 2012

حدیث معاذ بن جبل رضى الله عنه کیا صحیح سندوں سے مروی حدیث ہے ؟

شیخ عبدالروؤف بن عبدالحنان حفظہ اللہ نے ماہنامہ مصباح کے کالم ”صدائے عرش“کے تحت چھپے ایک مضمون میں وارد حدیث ’حدیث معاذ‘ پر استدراک فرمایا اور تفصیل سے اس کا حکم قلمبند کرکے ہمیں ارسال کیا ہے، ذیل کے سطورمیں ہم یہ استدراک پیش کرتے ہوئے شیخ موصوف کے شکر گذار ہیں اورآئندہ بھی ہم ان کے اور دیگر قارئین کے استدراک کا خیرمقدم کریں گے ۔
ماہنامہ مصباح شمارہ 41 جون 2012ء بمطابق رجب شعبان1433ھ میں تقریباً دوہفتہ قبل ایک کالم بعنوان ”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فیصلہ حرف آخر ہے“ نظر سے گذرا ۔ اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فیصلہ حرف آخر ہے ،جس طرح آپ کا فیصلہ حرف آخر ہے اسی طرح آپ کے فیصلے کو قبول کرنا بھی ہر مسلمان کا فرض ہے ۔
 اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
(ترجمہ)”تمہارے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک اپنے اختلافات میںآپ کو حکم تسلیم نہ کرلیں، پھر آپ جو فیصلہ صادر کریںاس کے بارے میں اپنے دلوںمیں کسی قسم کی تنگی بھی محسوس نہ کریں اوراس کے سامنے پوری طرح سرتسلیم خم نہ کریں ۔
مذکورہ کالم میں جو بات قابل ملاحظہ ہے وہ یہ کہ فاضل کالم نگار نے اس میں حدیثِ معاذ بن جبل رضى الله عنه  جس میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جب ان کو یمن کا حاکم بناکر بھیج رہے تھے تو پوچھا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کرو  گے ....الی آخر الحدیث کے بارے میں کہا ہے کہ”مسند احمد، ابوداود، ترمذی اورابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہے
 فاضل کالم نگار کے اس کلام پر درج ذیل ملاحظات ہیں :
انہوں نے اس حدیث کوابن ماجہ کی طرف بھی منسوب کیا ہے جبکہ جس سیاق سے انہوںنے اس حدیث کو ذکر کیا ہے اس سیاق سے یہ حدیث ابن ماجہ میں نہیں ہے بلکہ اس میں اس سیاق سے ہے : لا تقضین ولا تفصلن الا بما تعلم ، وإن شکل علیک أمر فقف حتی تبینہ أوتکتب إلی فیہ (ابن ماجہ حدیث 55، المقدمة)
یعنی اسی چیز کے بارے میں فیصلہ کروجس کا تم کو علم ہو اوراگر کسی چیز کے بارے میں کوئی اشکال ہوتو توقف اختیار کرو،یہاں تک کہ وہ تمہارے لےے واضح ہوجائے یا اس کے بارے میں مجھے لکھو “۔
یہ ہے ابن ماجہ کا سیاق اور اس کی سند انتہائی ضعیف ہے ،اس میں ایک راوی محمدبن سعید بن حسان المصلوب ہے ، حافظ ابن حجر نے تقریب میں اس کے بارے میں کہا ہے : ”کذبوہ “محدثین نے اس کو کذاب کہا ہے ۔ امام بوصیری اس سند کے بارے میں لکھتے ہیں : ھذا اسناد ضعیف محمدبن سعید ھو المصلوب اتھم بوضع الحدیث مصباح الزجاجة فی زوائد ابن ماجہ (حدیث20) ”یہ سند ضعیف ہے ،محمد بن سعید جوکہ مصلوب کے لقب سے مشہور ہے اس پر احادیث گھڑنے کی تہمت لگائی گئی ہے “۔
 ان کا یہ کہنا کہ مسند احمد ،ابوداود اورترمذی میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہے دواعتبار سے محل نظر ہے :
الف: ان کتب میں اس کی ایک ہی سند ہے اوروہ ہے شعبہ بن حجاج کی سند ۔
ب: مسند احمد، ابوداؤد،اورترمذی کی ایک روایت میں بعض راویوں نے اس حدیث کوشعبہ سے مرسل سند سے روایت کیا ہے اورمرسل سند ضعیف ہوتی ہے۔ اسی طرح شعبہ کے علاوہ ابواسحاق شیبانی کی سند سے بھی یہ حدیث مرسلاً ہی آئی ہے بلکہ معضل سند سے آئی ہے (۱) اوراس سند سے اس کو ابن ابی شیبہ نے مصنف (4/543/22989) میں اورابن حزم نے الاحکام (6/35) میں روایت کیاہے ۔
 شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’احادیث ضعیفہ ‘(حدیث881) میں اس حدیث کی مفصل تخریج کی ہے مگر شیبانی والی سند ان پر مخفی رہی ہے ، اس سند کا ذکر راقم نے ”روضة الناظر“لابن قدامہ “(2/338/259) کی تخریج میں کیا ہے جو شرکہ غراس کویت میں زیرطبع ہے ۔
بعض علماء اگرچہ اس حدیث کے ثبوت کی طرف گئے ہیں لیکن دلائل کے اعتبار سے درست یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، کبارائمہ ومحدثین نے اس کوضعیف کہا ہے ان کا ذکر ہم خوف طوالت کے باعث احادیث ضعیفہ کے حوالے سے کرتے ہیں : 1۔ بخاری 2۔ ترمذی 3۔ عقیلی 4۔ دارقطنی 5۔ ابن حزم 6۔ ابن طاہر 7۔ ابن جوزی 8۔ ذہبی 9۔ سبکی 10۔ ابن حجر (ملاحظہ ہو احادیث ضعیفہ2/285)
قلت : اما عبدالحق اشبیلی (متوفی ۲۸۵ھ) نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ،چنانچہ وہ الاحکام الوسطی (3/342) میں لکھتے ہیں : ھذا الحدیث لایسند ، ولایوجد من وجہ یصح ”یہ حدیث مسند نہیں ۔یعنی مرسل ہے ۔اورنہ یہ صحیح سند سے پائی جاتی ہے “۔
اس حدیث کی سند سے قطع نظر اس پر معنوی اعتبار سے بھی کلام کیاگیا ہے وہ یہ کہ یہ حدیث کتاب وسنت میں تفریق کرتی ہے جبکہ واجب یہ ہے کہ بیک وقت کسی مسئلہ کو کتاب وسنت دونوں میں دیکھا جائے ،کیونکہ سنت قرآن کی تفیسر ہے ،اس کے لیے سورہ نحل کی آیت (44) اورسورہ قیامہ کی آیت (18۔19) کودیکھاجائے ۔

الأربعاء، 8 أغسطس 2012

احناف کی کتب پر چند نظر


فضیلة الشیخ عبدالروؤف عبدالحنان الاشرفی حفظہ اللہ کی معرکہ الآراءکتاب ”احناف کی کتب پر چند نظر “ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں




الخميس، 10 مايو 2012

قیامت کے دن لوگوں کو کیا ا ن کی ماﺅں کے نام سے بلایا جا ئے گا ؟

  فضيلة الشيخ عبدالرؤوف بن عبد الحنان الاشرفى

بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے آباء یا ان کی ماﺅں کے نام سے بلایا جائے گا؟ لوگوں کی طرف سے اس کے بارے میں بکثرت سوال کے پیش نظر اس پر قدرے تفصیل سے لکھنا مناسب سمجھا گیا۔

درست یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپوں ہی کے نام سے بلایا جائے گا، ماﺅں کے نام سے نہیں جیسا کہ عام لوگوں میں مشہور ہے بلکہ بعض علماءبھی اس طرف گئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: باب ما یدعی الناس بآبائھم یعنی یہ بیان کہ لوگوں کو ان کے آباءکے ناموں سے بلایا جائے گا۔ اس باب کے تحت وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی درج ذیل حدیث لائے ہیں: ” ان الغادر ینصب لہ لواءیوم القیامة ‘ فیقال : ھذہ غدرة فلان بن فلان….( شرح البخاری لابن بطال : 9/354و ایضا فتح الباری: 10/563)
” خائن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، سو کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی خیانت ہے“۔
 ابن بطال اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ” ھذہ غدرة فلان بن فلان “ میں ان لوگوں کے قول کا رد ہے جن کا خیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماﺅں کے نام سے بلایا جائے گا کیوں کہ اس میں ان کے باپوں پر پردہ پوشی ہے اور یہ حدیث ان کے اس قول کے خلاف ہے۔“(حوالہ سابق)
اس حدیث کی بنا پر دیگر علماءنے بھی اس قول کے قائلین کا رد کیا ہے۔ اس کے بارے میں ایک صریح حدیث بھی ہے مگر وہ اسناد ی اعتبار سے ضعیف ہے اور وہ حدیث ابو الدرداء   رضی اللہ عنہ سے بایں الفاظ مروی ہے: انکم تدعون یوم القیامة باسمائکم واسماءآبائکم فاحسنوا اسمائکم۔”یقینا تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے نام سے بلائے جاﺅگے چنانچہ تم اپنے اچھے اچھے نام رکھو“( اس حدیث کو امام احمد (5/194) ابوداﺅد (4948) ابن حبان (7/528) اور بغوی (شرح السنة: 12/32) نے عبداللہ بن ابی زکریا کی سند سے ابوالدرداءرضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس کی سند ضعیف اس لیے ہے کہ ابن زکریا نے ابودرداءرضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے جیساکہ امام ابوداﺅد اورحافظ ابن حجرنے فتح الباری(10/577) میں کہا ہے اور حافظ منذری نے مختصر السنن (7/571)میں کہا ہے کہ ان کا ابودرداءرضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔)
جن بعض علماءنے کہا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کو اس کی ماں کے ناموں سے بلایا جائے گاباپ کے نام سے نہیں۔ ان کے درج ذیل دلائل ہیں۔
پہلی دلیل: قولہ سبحانہ و تعالی: یوم ندعوکل اناس بامامھم (الاسراء: (7” جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔“ محمد بن کعب نے (بامامھم)کی تفسیر میں کہا ہے: قیل یعنی:” بامھاتھم کہا گیا ہے ’یعنی ان کی ماﺅں کے ناموں سے ‘۔ ان کے اس قول کو امام بغوی اور امام قرطبی نے ذکر کیاہے اور کہا ہے کہ اس میں تین حکمتیں ہیں:
 ٭ عیسی علیہ السلام کی وجہ سے
 ٭ حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کے شرف کی بنا پر
٭ اولاد زنا کی عدم رسوائی کی وجہ سے ۔( معالم التنزیل للبغوی: 5/ 110 اور الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:5/628 )
مگرمحمد بن کعب کا یہ قول باطل ہے جیسا کہ علامہ شنقیطی نے ان کے اس قول کا رد ان الفاظ میں کیا ہے: قول باطل بلا شک ، وقد ثبت فی الصحیح من حدیث ابن عمررضی اللہ عنھما۔ (اضواءالبیان لمحمد الامین الشنقیطی2/322)
”یہ قول بلا شک باطل ہے۔ صحیح میں ابن عمر کی حدیث سے ثابت ہے “اس کے بعد انہوں نے ابن عمر کی مذکورہ حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح زمخشری نے بھی امام کی تفسیر   ” امھات“ سے کی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:و من بدع التفسیر ان الامام جمع الام ، وان الناس یدعون بامھاتھم ۔۔۔۔۔ (تفسیر الکشاف: 2/369)- ”انوکھی تفسیر وں میں سے ایک تفسیر یہ ہے کہ” امام “ ام کی جمع ہے اورلوگوں کوقیامت کے دن ان کی ماﺅں کے نام سے پکارا جائے گا….“
زمخشری کی اس انوکھی تفسیر کا رد امام نا صرالدین احمد بن منیر مالکی نے ان الفاظ میں کیا ہے:
و لقد استبدع بدعا لفظا و معنی ، فان جمع” الام “ المعروف الامھات“ ، اما رعایة عیسی (علیہ السلام ) بذکر امھات الخلائق لیذکر بامہ فیستدعی ان خلق عیسی (علیہ السلام ) من غیر اب غمیزة فی منصبہ ، وذلک عکس الحقیقة ، فان خلقہ من غیر اب کان لہ آیة، و شرفا فی حقہ واللہ اعلم ( الانتصاب فیما تضمنہ الکشاف من الاعتزال: 2/369 بھامش الکشاف)۔
 ” زمخشری نے لفظی اور معنوی بدعت ایجاد کی ہے،کیوں کہ ام کی معروف جمع ” امھات“ ہے۔رہا عیسی (علیہ السلام ) کی رعایت کی خاطر لوگوں کو ان کی ماﺅں کے ساتھ ذکرکرناتاکہ ان کی (عیسی علیہ السلام )کی ماں کا ذکر کیا جائے تو یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ عیسی (علیہ السلام ) کی بغیر باپ کے خلقت سے ان کے منصب پر حرف آتا ہے او ریہ حقیقت کے برعکس ہے کیوں کہ ان کا بغیر باپ کے پیدا کیا جانا، ان کے لیے معجزہ اور ان کے حق میں شرف ہے و اللہ اعلم“۔
بعض دیگر علماءنے مذکورہ تمام حکمتوں کا رد کیا ہے اور بعض نے اس رد کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔    (تفسیر روح المعانی للآلوسی: 15/(121 ۔
 واضح رہے کہ ” امام“ کی معتبر مفسرین نے چار تفسیریں کی ہیں مگر ان میں سے سب سے معتبر تفسیر یہ ہے۔ کہ ” امام“ سے مراد آدمی کا اعمال نامہ ہے کیوں کہ (یوم ندعوکل اناس بامامھم ) کے بعد اللہ عزو جل نے فرمایا ہے ۔ ( فمن اوتی کتابہ بیمینہ) حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیرکو اختیار کیا ہے اور علامہ شنقیطی نے ان کی تائید کی ہے۔  (تفسیرابن کثیر :5/127 و اضواءالبیان: 2/322)
فائدہ: امام کی تفسیر نبی اور پیشوا سے بھی کی گئی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قال بعض السلف:ھذا اکبر شرف لاصحاب الحدیث لان امامھم النبیا (تفسیرابن کثیر :5/126)- بعض سلف نے کہا ہے کہ یہ اہل حدیث کے لیے بہت بڑا شرف ہے  کیوں کہ ان کے امام نبی ا ہیں۔
دوسری دلیل: بعض واہی ، سخت ضعیف قسم کی روایات ہیں جو درج ذیل ہیں :
1۔ حدیث انس ص جس کے الفاظ یہ ہیں: یدعی الناس یوم القیامة بامھاتھم سترا من اللہ عز وجل علیھم (ابن عدی: 1/336 اور ان سے ابن جوزی نے الموضوعات (3/248) میں روایت کیا ہے اور اس کو علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال (1/177) میںابن عدی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اس میں بامھاتھم کی بجائے ” باسماءامھاتھم“ ہے) ۔
 ”روز قیامت لوگوں کو اللہ عز وجل کی طرف سے ان پر  پردہ پوشی کی وجہ سے ان کی ماﺅں کے ساتھ بلایا جائے گا۔“ مگر اس حدیث کی سند ضعیف ہے( اس حدیث کی سند اسحاق بن ابراہیم کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔)
جلال الدین سیوطی کا اس حدیث کی تقویت کی طرف رجحان ہے چنانچہ انہوں نے اس حدیث پر ابن جوزی کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے :
” قلت : صرح ابن عدی بان الحدیث منکر فلیس بموضوع ، ولہ شاہد من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ اخرجہ الطبرانی“ (التعقبات علی الموضوعات 51)
 ” میں کہتا ہوں ابن عدی نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث منکر ہے ۔چنانچہ یہ موضوع نہیں اور اس کا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ایک شاہد ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔“ قلت : اس حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں : ” ان اللہ تعالی یدعو الناس یوم القیامة باسمائھم سترا منہ علی عبادہ “ ( طبرانی نے المعجم الکبیر(11/122) میں روایت کیا ہے ) یقینا اللہ تعالی قیامت کے دن لوگوں کو ان پر پردہ پوشی کی خاطر ان کے ناموں سے بلائے گا“ مگر یہ حدیث درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر شاہد بننے کے قابل نہیں : اس میں لوگوںکو ان کے ناموں سے بلائے جانے کا ذکر ہے ماﺅں کے ناموں سے بلائے جانے کا ذکر نہیں ۔ اس کی سند سخت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ (کیوں کہ اس کی سند میں اسحاق بن بشیرابوحذیفہ بخاری ہے جو متروک بلکہ کذاب ہے۔ البانی نے اس کو الضعیفہ (434) میں موضوع کہا ہے )۔
 تنبیہ : حافظ ابن حجر نے” فتح الباری“ ( 10/563) میں ابن بطال کا یہ قول: فی ہذا الحدیث رد لقول من زعم انھم لا یدعون یوم القیامة الا بامھاتھم سترا علی ابائھم ۔ (شرح البخاری لابن بطال : 9/354) ”اس حدیث میں ان لوگوں کے قول کا رد ہے جن کا خیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماﺅں کے نام سے بلایا جائے گا کیوں کہ اس میں ان کے باپوں پر پردہ پوشی ہے۔“ ذکر کرنے کے بعد کہا ہے: ” قلت : ھو حدیث اخرجہ الطبرانی من حدیث ابن عباس وسندہ ضعیف جدا ، واخرج ابن عدی من حدیث انس مثلہ ، وقال : منکر اوردہ فی ترجمة اسحاق بن ابراہیم الطبری“۔ ( فتح الباری ( 10/563)
” میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ ابن عدی نے اس جیسی حدیث انس سے بھی روایت کی ہے اور اسے منکر غیر صحیح کہا ہے۔ انہوں نے اس کو اسحاق بن ابراہیم طالقانی طبری کے ترجمے میں روایت کیا ہے۔ “ ۔
 قلت: حدیث ابن عباس میں ” باسمائھم “ ہے ” بامھاتھم نہیں۔ اسی طرح ان کا ”حدیث انس مثلہ “ بھی کہنا درست نہیں کیوںکہ اس حدیث میں بامھاتھم“ ہے۔ یہی وہم علامہ ابوالطیب عظیم آبادی سے بھی ہواہے کہ انہوں نے حدیث  ابن عبا س کو لفظ ”بامھاتھم “ سے ذکر کیا ہے۔نیز ان سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حدیث ابن عباس کو طبرانی نے بسند ضعیف روایت کیا ہے جیسا کہ ابن قیم نے حاشیة السنن میں کہا ہے جبکہ ابن قیم رحمہ اللہ نے حدیث ابن عباس کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ  انہوں نے حدیث ابوامامہ کا ذکر کیاہے جو عنقریب آرہی ہے۔   (عون المعبود:8/283 اور تہذیب السنن: 7/250)
 2۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنھما: اس حدیث کا ابھی حدیث انس کے ضمن میں ذکر ہوا اور یہ بھی بیان ہوا کہ دو وجوہ کی بنا پر اس حدیث سے حجت لینا درست نہیں ۔
 3۔ حدیث ابو امامہ :حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں میت کو دفن کر دینے کے بعد اسے تلقین کرنے کا ذکر ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
 اذا مات احدکم من اخوانکم فسویتم التراب علی قبرہ فلیقم احدکم علی راس قبرہ ثم لیقل : یا فلاں بن فلانة ‘فانہ یسمعہ ،ولا یجیب ثم یقول : یا فلاں بن فلانة۔۔۔۔ وفی آخرہ ۔ فقال رجل : یا رسول اللہ فان لم یعرف امہ قال : فینسبہ الی حواء، یا فلاں بن حواء (طبرانی نے المعجم الکبیر(8/298/حدیث نمبر: 8989) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔)
” جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی مرجائے اور تم اس کی قبر پر مٹی کو برابر کرلو تو تم میںسے کوئی ایک اس کی قبر کے سر پر کھڑا ہو ، پھر کہے ، اے فلاں ، فلاں عورت کے بیٹے ،سویقینا وہ اس کی بات کو سنتا ہے لیکن جواب نہیںدے پاتا۔پھر کہے اے فلاں ،فلاں عورت کے بیٹے ،، (اور اس حدیث کے آخر میں ہے) ایک آدمی نے سوال کیا ! یا رسول اللہ ! اگر وہ اس کی ماں کو نہ جانتا ہو؟ فرمایا ، وہ اس کو حواءکی طرف منسوب کرے کہے، اے فلاں حواءکے بیٹے “ مگر اس حدیث سے حجت لینا درست نہیں کیوںکہ یہ سخت ضعیف ہے(طبرانی نے سعیدبن عبد اللہ الاودی کی سند سے ابو امامہ سے روایت کیا ہے اور حافظ ہیثمی نے کہا ہے وفی اسنادہ جماعة لم أعرفہ (مجمع الزوائد:3/ (48 اس کی سند میں ایک جماعت ایسی ہے جن کو پہچان نہیں سکا۔ یعنی ان کو ان کے تراجم نہیں ملے)۔
 ابن القیم نے اس حدیث کو اس لیے بھی رد کیا ہے کہ صحیح احادیث کے خلاف ہے چنانچہ لکھتے ہیں:” ولکن ھذا الحدیث متفق علی ضعفہ ، فلا تقوم بہ حجة فضلا عن أن یعارض بہ ما ھو أصح منہ“ ( تہذیب السنن: 7/250) لیکن اس حدیث کے ضعف پر اتفاق ہے لہذا اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ اس کو صحیح حدیث کے مقابلے میں لایا جائے۔
 قلت: اس حدیث کا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی رد ہوتا ہے۔ جس میں ہے کہ رسول اللہ ا جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو فرماتے : ” استغفرو ا لاخیکم   وسلوا لہ التثبیت ، فانہ الآن یسال“ (ابوداﺅد: 3221 الحاکم: 1/ 370 اس کی سند حسن درجے کی ہے اور امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام ذھبی نے ان کی موافقت کی ہے)
 ” اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا۔“
اس حدیث معلوم ہوا کہ اس موقع پر میت کے لیے استغفار اور ثابت قدمی کا سوال کیا جائے گا نہ کہ اس کو تلقین کی جائے گی۔ ابن علان نے اس حدیث کو حدیث ابی امامہ کے شواہد میں ذکر کيا ہے۔ (الفتوحات الربانیہ : 4/196)
 اور کس قدر عجیب بات ہے کیوں کہ استغفار ،ثابت قدمی اور تلقین میں بہت فرق ہے اور صحیح احادیث سے جو تلقین ثابت ہے وہ قریب الموت آدمی کے بارے میں ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ( صحیح مسلم: 6/219 ۔ 230) ” اپنے مردوں کو( قریب المرگ لوگوں کو) لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو“۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی قابل اعتماد حدیث ایسی نہیں ہے کہ جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ روز قیامت آدمی کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا بلکہ عبد اللہ بن عمر ؓ کی صحیح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اس کے باپ کے نام سے بلایا جائے گا۔بعض علماءنے ان روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے وہ یوں کہ جس حدیث میں باپ کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے وہ صحیح النسب آدمی کے بارے میں ہوا اور جس میں ماں کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے وہ دوسرے آدمی کے بارے میں ہے۔ یا یہ کہ کچھ آدمی لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے اور کچھ لوگوں کو ان کے ماں کے نام سے بلایا جائے گا۔ اس جمع یا تطبیق کو عظیم آبادی نے علقمی سے نقل کیاہے۔ (عون المعبود: 8/283 ) بعض نے ایک دوسرے طریقے سے تطبیق دی ہے ،وہ یہ کہ خائن کو اس کے باپ کے نام سے اور غیر خائن کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا اور اس کی جمع کو ابن علان نے شیخ زکریا سے نقل کیا ہے۔ (الفتوحات الربانیہ : 6/104) بعض نے حدیث ابن عمرر ضی اللہ عنہ کو اس پر محمول کیا ہے کہ یہ اس آدمی کے بارے میں ہے ۔ جو ولد الزنا نہ ہو یا لعان سے اس کی نفی نہ کی گئی ہو۔ (الفتوحات الربانیہ : 6/104) مگر یہ سب تکلفات ہیں کیوں کہ جمع اور تطبیق کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب دونوں طرف کی روایات صحیح ہوتیں جب کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف جو روایات ہیں وہ انتہائی ضعیف قسم کی ہیں۔ نیز اصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے باپ ہی کے نام سے پکارا جائے گا ، ابن بطال لکھتے ہیں:
والدعاءبالآباءاشد فی التعریف وابلغ فی التمیز  وبذلک نطق القرآن و السنة۔ (شرح البخاری لابن بطال : 9/354) ” باپوں کے نام سے بلانا پہچان میں زیادہ واضح اور تمیز میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و سنت بھی اسی پر شاہد ہے۔

الثلاثاء، 17 أبريل 2012

ابو شحمہ سے منسوب قصہ کی اصل حقیقت

شیخ حافظ عبدالرؤوف عبدالحنان -کویت

ابو شحمہ کے قصے کے بارے میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو ابوشحمہ کے وجود کے ہی منکر ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ مجھے ایک صاحب کا ایک مضمون بعنوان ” ابو شحمہ سے منسوب واقعہ صحیح نہیں ہے“ دیکھنے کا موقعہ ملا جس میں مضمون نگار نے ابوشحمہ کے وجود سے ہی انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ لکھا تھا: ” الفاروق مصنفہ شبلی میں  حضرت عمر صکے لڑکے کا نام ابوشحمہ بیان کیا گیاہے لیکن ماہرین انساب کی کسی تحریرسے اس کا ثبوت نہیں ملتا“ ۔ ان کا ےہ مضمون ایک صاحب کے رد میں تھا جنہوں نے ابو شحمہ کے قصے کو عدلِ فاروق صکے طور پر ذکر کیا تھا۔ اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ابوشحمہ کے اس قصے کو ( جس   کہ ابوشحمہ نے شراب پی، پھر ایک یہودی لڑکی سے زنا کیا ، جس پر ان کے والد عمر فاروقرضى الله عنه نے انہیں کوڑے لگائے اور کوڑوں کے دوران ان کی موت واقع ہو گئی) عدلِ عمرفاروق ص میں بڑے فخر سے ذکر کرتے ہےں۔ اور کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو ان کے صحیح قصہ(جس کی تفصیل عنقریب آرہی ہے)سے بھی انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ایک مضمون بعنوان ’ ’ ابو شحمہ کا بے اصل واقعہ “ لکھا جس میں انہوں نے ان کے صحیح قصے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ان صاحب کا مضمون بھی ایک صاحب کے رد میں تھا جنہوں نے ابو شحمہ کے قصے کو عدلِ فاروق رضى الله عنه ميں ذکر کیا تھا۔ یہ مضمون اور اس سے پہلے والا مضمون بھی پاکستان میں شائع ہوئے تھے۔ جن جرائد میں یہ شائع ہوئے تھے ان میں راقم کی طرف سے ان کا رد بھی لکھا گیا تھا۔پہلے مضمون کا رد ”ابو شحمہ سے منسوب واقعہ کی اصل حقیقت “ تھا اور دوسرے مضمون کا رد ” ابو شحمہ عبد الرحمن بن عمر بن خطابرضى الله عنه  کا اصل واقعہ “ کے عنوان سے تھا۔ ابوشحمہ والا قصہ لوگوں میں چونکہ کافی مشہور ہے، چنانچہ اس کی شہرت کے باعث اس کے بارے میں لکھنا مناسب سمجھا گیا، تاکہ قارئین اس قصہ کی اصل حقیقت سے آگاہ ہوں،اور جو من گھڑت قصہ ہے اس پر مطلع ہوں۔ اس مضمون میں سب سے پہلے ابوشحمہ کے وجود کے اثبات کے بارے میں مختصر سا بیان ہوگا ، اس کے بعد ان کا جو صحیح قصہ ہے اس کا ذکر ہوگا۔

ابو شحمہ کا وجود
امیر المومنین عمر بن خطاب صکے عبد الرحمن نامی تین بیٹے تھے۔ (1) عبد الرحمن اکبر (2) عبد الرحمن اوسط  (3) عبد الرحمن اصغر۔عبد الرحمن اوسط ‘ یہی ابوشحمہ ہیں، عبد الرحمن ان کا نام ہے اور ابوشحمہ ان کی کنیت ہے۔ ابن سعد اور زبیر بن بکار وغیرہ کا کہنا ہے کہ عبد الرحمن اوسط اولادِعمر میں سے ہےں جن کی کنیت ابوشحمہ ہے۔ ملاحظہ ہو ”طبقات ابن سعد (3۔ 266‘265) ‘ مناقب عمر لابن الجوزی (264)‘ اباطیل جورقانی(2۔228) اور البدایةوالنہایةلابن کثیر (7۔144)
امام نووی نے تہذیب الاسماءو اللغات (2۔15) میں عمر فاروق ص کے ترجمے میں اولادِعمر میں ابو شحمہ کا ذکرکیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا نام عبد الرحمن ہے ۔ حافظ ابن عبد البر نے الاستیعاب (2۔395) میں اور ابن اثیر نے اسد الغابہ میں (3۔312) میں ان کے بڑے بھائی ” عبد الرحمن اکبر“ کے ترجمے میں ان کا ذکر کیا ہے اور ان کو کوڑے مارے جانے والا واقعہ بھی نقل کیا ہے جو عنقریب آرہا ہے ۔ ان کی طرح حافظ ابن حجر نے بھی  ” الاصابہ“ ( 2۔406‘405)میں” عبد الرحمن اکبر“ کے ترجمے میں ان کا ذکر کیا ہے اور ان کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آگے چل کر حافظ صاحب نے صحابہث کی دوسری قسم (دوسری قسم ان صحابہ کی ہے جنہیں قرائن وشواہدکی بنا پر صحابہ میں شمار کیا گیا ہے یعنی ان کی صحبت پر کوئی صریح دلیل نہیں۔ تفصیل کے لےے مقدمہ الاصابہ۱۔ ۶‘۷ دیکھاجائے) مےں ان کا مستقل ترجمہ لکھا ہے ۔ اور ان کے قصے کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ” الاصابہ“ (۳۔ ۲۷‘۳۷ترجمہ عبد الرحمن بن عمر ) ۔
اولادِ عمرصمیں عبدالرحمن الاوسط کا ذکر طبری نے بھی تاریخ طبری (۵۔۷۱) میں کیا ہے۔ مگر ان کی کنیت ذکر نہیں کی۔ اولادِ عمر میں ان کاتذکرہ مسعودی نے بھی  ” مروج الذہب“ (۲۔۰۳۳) میں کیا ہے۔ چنانچہ اولادِ عمر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ” و عبد الرحمن الاصغر ھو المحدود فی الشراب‘ وھو المعروف بابی شحمة“ ۔عبدالرحمن اصغر اور یہ وہی ہیں جنہیں شراب  پینے کی حد لگائی گئی اور ےہ ابوشحمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ (مروج الذھب کے مطبوعہ نسخے میں عبدالرحمن الاصغر ہی ہے اگر یہ طباعت کی غلطی نہیں تو مسعودی کا وہم ہے کیونکہ حد والا واقعہ عبدالرحمن الاوسط کا ہے ۔ عبدالرحمن الاصغر کا نہیں) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ” ابو شحمہ “ جن کا نام عبد الرحمن الاوسط ہے ‘ کا وجود ہے ۔ جس طرح ابوشحمہ کا وجود ہے ،اسی طرح ان کی طرف منسوب واقعہ کی بھی کچھ حقیقت ہے۔
لہذا اب وہ حقیقت یعنی ابو شحمہ کا صحیح قصہ ملاحظہ کریں۔
عبد اللہ بن عمررضى الله عنه بیان کرتے ہيں : شرب أخی عبدالرحمن بن عمر۔وشرب معہ أبو سروعہ عقبہ بن الحارث، وھما بمصر فی خلافة عمر، فسکرا، فلما أصبحا انطلقا الی عمروبن  العا ص وھو أمیر مصر۔ فقالا : طھِّرنا، فانا قد سکرنا من شراب شربناہ، فقال عبداللہ: فذکرلی أخی أنہ سکر، فقلتُ :أدخل الدار أطھرک ولم أشعر أنھما أتیا عمرواً فأخبرنی أخی أنہ أخبر الأ میر بذلک، فقال عبداللہ : لا تحلق الیوم علی روؤس الناس، أدخل الدار، أحلقک، وکانوا إذ ذاک یحلقون مع الحدود، فدخل الدار ، فقال عبداللہ: فحلقتُ أخی بیدی ثم جلدھم عمرو، فسمع بذلک عمر، فکتب الی عمرو ان ابعث الیّ بعبدالرحمن علی قتب، ففعل ذلک ، فلما قدم علی عمر جلدہ و عاقبہ لمکانہ منہ، ثم أرسلہ، فلبث شھرا صحیحا، ثم أصابہ قدرہ فمات، فیحسب عامة الناس أنہ مات من جلد عمر، ولم یمت من جلد عمر ۔
”ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ خلافتِ عمر میں مصر میں میرے بھائی عبدالرحمن اور ابو سروعہ عقبہ بن حارث نے (ایک رات نبیذ) پی لیا جس سے ان کو نشہ آگیا ‘ جب صبح ہوئی تو وہ دونوں عمرو بن عاص صکے پاس گئے اور وہامیر مصر تھے۔ اور ان سے کہا کہ ہمیں پاک کرو کیونکہ ہم نے (نبیذ) پیا ہے۔ ( مذکورہ نص میں مطلق پینے کا ذکر ہے، کیا پیا اس کی وضاحت نہیں ہے‘ مگر ابن جوزی ؒنے کہا ہے کہ انہوں نے رات میں نبیذ پیا تھا ۔ ملاحظہ ہو ۔ موضوعات : ۳۔۴۷۲) جس سے ہمیں نشہ آگیا ہے۔ ابن عمررضى الله عنه کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے مجھ سے بیان کیا کے مجھے نشہ آگیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ گھر چلو ‘ میں تمہیں پاک کردوں‘ اور مجھے یہ خبر نہ تھی کہ وہ دونوں عمرو بن العاصص کے پاس جاچکے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے بتایا کہ وہ اس واقعہ کی خبر امیر کو دے چکے ہیں‘ میں نے کہا کہ آج سب لوگوں کے سامنے تمہارا سر نہیں مونڈا جائے گا۔گھر چلو ‘میں تمہارا سر مونڈدوں ‘اور اس وقت کوڑے کے ساتھ ساتھ سر کے بال بھی مونڈا کرتے تھے۔ وہ گھر میں آئے ، میں نے اپنے ہاتھ سے ان کا سر مونڈا ،اس کے بعد عمرو نے ان کو کوڑے لگائے۔اس واقعہ کے بارے میں جب عمر ص نے سنا تو انہوں نے امیر کو لکھا کہ عبدالرحمن کو میرے پاس (مدینہ) بھیجو۔ انہوں نے انہیں بھیج دیا، عبد الرحمن جب عمرص کے پاس مدینہ آئے تو انہوں نے ان کو اپنے یہاں عزیز ہونے کی بنا پر کوڑے لگائے اور ساتھ سزا بھی دی،اس کے بعد ایک ماہ تک وہ صحیح و تندرست رہے پھر تقدیر الہی سے فوت ہو گئے ۔ عامة الناس تو یہ تصور کرتے ہیں کہ ان کی موت کا سبب عمر کے کوڑے تھا حالانکہ کوڑے ان کی موت کا سبب نہ تھا۔ “
اس کو عبدالرزاق نے (۹۔۲۳‘ ۲۔۷۴۰۷۱) جورقانی نے ”الاباطیل“(۲۔۳۹‘۱۔۹۷۸)میںاوربیہقی(۸۔۲۱۳‘ ۳۱۳) نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے اور ا س کی سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے۔امام جورجانی اس قصے کوروایت کرنے کے بعدلکھتے ہیں: ”یہ حدیث ثابت ہے ، اس کی سند متصل ہے“۔ حافظ ابن حجر، حافظ سخاوی اور متقی ھندی نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ الاباطیل للجورجانی :۲۔۴۹۱ ، فتح الباری لابن حجر(۲۱۔۵۶)الاجوبہ المرضیة للسخاوی(۳۔ ۶۳۹) اورکنزالعمال لمتقی الھندی(۲۱۔۵۶۶)
يہ حدیث ثابت ہے اور اس کی سند متصل ہے جیسا کہ محدثین کا قول گذراہے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ابوشحمہ عبدالرحمن بن عمر کی وفات کا سبب کوڑے نہ تھابلکہ وہ اس واقعہ کے ایک مہینہ کے بعد قضائے الہی سے فوت ہوئے جیسا کہ نفںِواقعہ میںصراحت موجودہے۔ حافظ ابن عبدالبر اس قصہ کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ھکذا یرویہ معمر عن الزہری عن سالم عن ابیہ وا ما اھل عراق فیقولون انہ مات تحت سیاط عمر، وذلک غلط۔” اس قصہ کو معمر نے زہری سے ( زہری سے اس کو شعیب نے بھی روایت کیا ہے جیسا کہ گذر چکا ہے۔) انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح روایت کیا ہے جبکہ اہل عراق کہتے ہیں کہ ان کی وفات عمر کے کوڑوں تلے ہوئی جو غلط ہے“۔ ( الاستیعاب: ۲۔۵۹۳‘ اسد الغابة: ۳۔۲۱۳‘ الاصابہ: ۳۔۲۷)
ایک سوال اور اس کا جواب
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمرو بن عاص ص ابو شحمہ کو جب حد لگا چکے تھے تو پھر امیرالمومنین عمر ص نے ان کو دوبارہ حد کس بنا پر لگائی کیونکہ حد تو ایک مرتبہ ہی لگائی جاتی ہے۔اس سوال کا جواب دیتے ہوئے امام بیہقی  رقمطراز ہيں: والذی یشبہ انہ جلدہ جلد تعزیر، فان الحد لا یعاد واللہ اعلم (سنن بیہقی ۸۔۳۱۳)
جو بات قرینِ قیاس ہے وہ یہ کہ آپ نے ان کو تعزیر اً کوڑے لگائے کیونکہ حد دوبارہ قائم نہیں کی جاتی، واللہ اعلم۔“ حا فظ ابن عبد البر لکھتے ہیں: فضربہ ا بوہ ا دب الوالد ”ان کے والد نے ان کو تادیبا ًمارا“  ( الاستیعاب : ۲۔۵۹۳) اور ابن جوزی لکھتے ہیں: وانما لما قدم علی عمر ضربہ ضرب تادیب    لا ضرب حد ” جب وہ عمرکے پاس آئے تو انہوں نے ان کو تادیب کے  طور پر کوڑے لگائے تھے، حد کے طور پر نہیں۔“(موضوعات: ۳۔۵۷۲) اور انہوں نے یہ بھی کہا : وا ما کون عمر ا عاد الضرب علی ولدہ فلیس ذلک حداً وانما ضربہ غضباً وتادیباً و الا فالحد  لا یکرر ” عمرصکا اپنے بیٹے کو دوبارہ مارنا یہ حد نہ تھی بلکہ انہوں نے اس کو غصہ اور تادیب کے طور پر مارا تھا کیونکہ حدود دوبارہ نہیں لگائی جاتی“۔(مناقب عمر بن الخطاب :270)
قلت: اس واقعہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ ذکر کرنا جلدہ لمکانہ منہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ان کو تادیب کے طور پر کوڑے لگائے تھے۔ حد کے طور پر نہیں۔
تنبیہ :اس قصہ کو ابن سعد نے ایک دوسری سند سے اسلم کی سند سے کافی تفصیل سے روایت کیا ہے۔ جس میں ےہ الفاظ بھی ہیں:فکلّمہ عبد الرحمن بن عوف فقال یا امیر المومنین قد ا قیم علیہ الحد مرة فما علیہ ا ن تقیمہ ثانیة ، فلم یلتفت الی ھذا و زبرہ فجعل عبد الرحمن یصیح انی مریض وا نت قاتلی فضربہ الثانیة الحد وحبسہ ثم مرض فمات ۔
عبد الرحمن بن عوف  رضي الله عنه  نے ان سے بات چیت کی ،کہا کہ امیر المومنین اس پر جب ایک مرتبہ حد قائم کی جاچکی تو آپ دوبارہ کس لےے حد قائم کرنا چاہتے ہیں مگر آپ نے اس بات کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔ اور ان کو( ابوشحمہ کو) ڈانٹا، انہوں نے چیخنا شروع کردیا کہ میں بیمار ہوں،آپ مجھے مار دینا چاہتے ہیں، سو آپ نے ان پر دوبارہ حد قائم کی اور قید میں بھی رکھا پھر وہ بیمار ہوگئے اور وفات پا گئے۔“( کنز العمال : ۲۱۔۴۶۶‘ ۳۱۰۶۳‘ و منتخب کنز العمال : ۴۔۲۲۴‘ بحوالہ ابن سعد لیکن طبقات ابن سعد کے مطبوعہ نسخے میں مجھے یہ واقعہ نہیں ملا جبکہ ابن جوزیؒ اور حافظ ابن حجر  نے بھی اس کو ابن سعد کی طرف منسوب کیا ہے۔)
ان الفاظ سے صراحتا ًپتہ چلتا ہے کہ عمرص کا ابوشحمہ کو دوبارہ کوڑے لگانا حد کے طور پر تھا۔اس روایت کی سند کیسی ہے ؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ طبقات ابن سعد کے مطبوعہ نسخے میں مجھے یہ واقعہ نہیں ملا واللہ اعلم ۔ مگر حافظ ابن حجر کے اندازے سے ظاہر ہوتا ہے کہ  ابن سعد کی ےہ سند صحیح نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اس قصہ کوابن سعد کے حوالے سے ذکر کرنے پر سکوت اختیار کیا ہے۔ اور اس کے بعد اس کے لےے عبد الرزاق کا حوالہ دے کر اس کی سند کو صحیح کہا ہے چنانچہ ان کے الفاظ ےہ ہیں: واخرجہ عبد الرزاق بسند صحیح عن ابن عمر مطولاً (فتح الباری: ۲۱۔۵۶) ابن سعد والی سند بھی اگر صحیح ہو تو اس سوال کا جواب ہمیں اس روایت سے ہی مل سکتاہے ۔ وہ اس طرح کہ اس روایت میں ہے کہ عمرو بن العاصصنے ابو شحمہ اور ان کے ساتھی عقبہ بن حارث کو سرِعام حد لگانے کی بجائے گھر کے اندر ہی حد لگا دی ۔ لہذا ممکن ہے کہ عمرصنے ان کی اس حد کو حد ہی نہ سمجھا ہو، کیونکہ ےہ حد سرِعام حد قائم کرنے کے اسلامی طریقے کے منافی تھی۔لہذا انہوں نے دوبارہ اسلامی طریقے کے مطابق حد نافذ کی ہو،اور ےہ بھی ممکن ہے کہ راوی نے اس تادیب کو حد سمجھ لیا ہو۔واللہ اعلم بالصواب۔ بعد میں مجھے ابن سعد کی سند مل گئی ، ان کی سند کو حافظ ابن کثیر نے الفاروق(۲۔۸۱۵) میں اور ابن جوزی نے مناقب عمربن الخطاب (۷۶۲۔۸۶۲) میں ذکر کیا ہے اور وہ سند صحیح نہیں ہے بلکہ سخت ضعیف ہے۔
خلاصہ:
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ابو شحمہ کا واقعہ اس حد تک صحیح ہے کہ ان کے والد عمر بن الخطاب ص نے ان کو کوڑے لگائے ، کوڑے لگائے جانے کے بعد ایک ماہ تک وہ بالکل صحیح و تندرست رہے ،اس کے بعد وہ قضائے الہی سے وفات پا گئے جس کا عام لوگوں نے مطلب یہ لیا کہ وہ کوڑوں کی وجہ سے فوت ہوئے ۔اصل قصہ یہ تھا ۔
ابو شحمہ کا غیر صحیح قصہ
مگر قصہ گو لوگوں نے اس میں طرح طرح کے رنگ بھر کر اس کو کچھ کاکچھ بنا دیا، اس رنگ بھرے قصے کو امام جورقانی نے الاباطیل (۲۔۴۸۱‘۲۹۱) میں اور ابن جوزی نے موضوعات (۳۔۹۶۲‘۳۷۲) میں روایت کیا ہے اور وہ کافی طویل قصہ ہے جو تقریباً چار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رنگ بھرے قصے میں ہے کہ ابوشحمہ نے ایک یہودی کے ہاں شراب پی، اس کے بعد راستے میں جانے والی ایک عورت سے زنا بالجبر کیا ۔ جس سے وہ حمل سے ہو گئی جب بچہ پیدا ہوا تو وہ اس بچے کو عمر فاروق ص کے پاس لے کر آئی اور کہنے لگی کہ یہ لو اپنا بچہ، آپ اس کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں،ان کے پوچھنے پر اس نے پوری تفصیل بیان کر دی،تفصیل سن لینے کے بعد آپ ابو شحمہ کے پاس گئے اور ان سے بڑے عجیب وغریب طریقے سے  اقبالِ جرم کروایا، اس کے بعد اپنے غلام افلح کو حکم دیا کہ وہ عبد الرحمن کو کوڑے لگائے اور کوڑوں کے دوران باپ بیٹے کا عجیب وغریب مکالمہ بھی مذکور ہے۔ اس قصے کے آخر میں ہے کہ جب نوے کوڑے مارے جاچکے تو ابو شحمہ کا کلام منقطع ہو گیا اور وہ کمزور پڑ گئے تو ہر طرف سے صحابہ آگے بڑھے اور آپ سے باقی دس کوڑے آئندہ کسی وقت لگوانے کا مطالبہ کیا، آپ نے جواب دیا کہ جس طرح معصیت میں تاخیر نہیں ہوتی، اسی طرح اس کی عقوبت میں تاخیر نہیں ہو سکتی۔ اسی دوران ابوشحمہ کی والدہ بھی چیختی چلاتی حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میں ہر کوڑے کے بدلے پیدل حج کروںگی اور اتنے درہم خیرات بھی کروںگی، آپ باقی کوڑے نہ لگوائیں،انہوں نے جواب دیا کہ حج اور صدقہ حد  کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔جب آخری کوڑا لگا تو ابوشحمہ کی روح پرواز کر گئی۔اس کے بعد آپ نے ابو شحمہ کو اپنی گود میں لیا اور رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ اللہ تعالی تمہاری خطاوں کو معاف کرے،میرا باپ اس پر قربان ہوجس کو حق نے مار ڈالا،جو حدکے اختتام پر فوت ہو گیا جس پر اس کے باپ اور نہ ہی عزیزواقارب نے رحم کیا۔یہ ایک عظیم دن تھا لوگ زاروقطار روئے۔ اس واقعہ کے چالیس دن بعد جمعہ کی صبح کو حذیفہ بن یمان صعمر فاروق صکے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آج رات میں نے اپنا ورد کیا تو خواب میں مجھے رسول ا دکھائی دئیے ، آپ اکے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا، آپ ا نے مجھ سے فرمایا کہ میری طرف سے عمر کو سلام کہنا اور کہنا کہ اللہ تعالی نے تمہیں اسی طرح ہی حکم دیا ہے کہ قرآن پڑھو اور حدود کا نفاذ کرو۔اور اس نوجوان نے کہا کہ میری طرف سے بھی میرے والد کو سلام کہنا اور کہنا کہ جیسے آپ نے مجھے پاک کیا ہے ایسے اللہ تعالی آپ کو بھی پاک کرے والسلام۔
یہ قصہ تین سندوں سے مروی ہے اور ان سندوں میں انقطاع کے ساتھ ساتھ مجاھیل(غیرمعروف) اور کذاب قسم کے راوی ہےں، امام جورقانی ؒ اور علامہ ابن جوزیؒ نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ اور سیوطی نے ان کی موافقت کی ہے۔اسی طرح شوکانی  نے بھی اس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیاہے۔ ( ملاحظہ کریں: اللآلی المصنوعہ : ۲۔۴۹۱‘ ۸۹۱) و (تنزیہ الشریعة لابن عراق: ۲۔۰۲۲) اور  ( الفوائد المجموعة للشوکانی :۳۰۲) ۔
علامہ ابن جوزی اس کی سندوں پر مختصر کلام کرنے کے بعد لکھتے ہےں: و لا طائل فی الاطالہ بجرح رجالہ فانہ لوکان رجالہ من الثقات علم انہ من الدساسین لما فیہ مما یتنزہ عنہ الصحابہ فکیف ولیس اسنادہ بشیء۔”اس کے راویوں کی جرح کی تفصیل میں جانے کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ اس کے راوی اگر ثقہ بھی ہوں تب بھی اس کا جھوٹے لوگوں کی طرف سے وضع کرنا اور گھڑنا واضح ہے۔کیونکہ اس کے اندر ایسی چیزیں ہیں جن سے صحابہ مبرا اور پاک تھے۔ کیسے جبکہ اس کی سند کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے“۔
اس سے قبل انہوں نے اس قصہ کو روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: ” ھذا حدیث موضوع، کیف روی، ومن ای طریق نقل ؟ وضعہ جہال القصاص لیکون سبباً فی تبکیت العوام والنسائ، فقد أبدعوا فیہ وا توا بکل قبیح و نسبوا الی عمر مالایلیق بہ، ونسبوا الی الصحابہ مالایلیق بہم وکلماتہ الرکیکة تدل علی وضعہ وبعدہ عن ا حکام الشرع یدل علی سوءفھم واضعہ و عدم فقھہ ۔۔۔ الی آخر کلامہ۔
یہ حدیث جس طرح اور جس سند سے بھی منقول ہو موضوع اور من گھڑت ہے ،قصہ گو لوگوں نے عوام الناس اور عورتوں کو رلانے کی خاطر گھڑا ہے،اس کے اندر انہوں نے بڑی فنکاری کا مظاہرہ کیا ہے،اور اس میں ہر قبیح چیز کو ذکر کیا ہے ۔ عمر اور صحابہ ثکی طرف انہوں نے ایسی چیزیں منسوب کر دی ہیں جو ان کی شایانِ شان نہ تھیں۔ اس کے رکیک اور پھسپھسے کلمات اس کے من گھڑت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔اور اس کا احکامِ شریعت سے بعید ہونا اس کے گھڑنے والے کے سوءِفہم اور عدمِ فقاہت پربھی دلالت کرتا ہے۔
امام جورقانی ؒیہ ذکر کرنے کے بعد کہ اس کو قصہ گو لوگوں نے گھڑا ہے ،لکھتے ہیں: فنعوذ باللہ من الکذب   والبھتان و النفاق  والخذلان….”جھوٹ ، بہتان ، نفاق اور رسوائی سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں“ ۔
اسی پر یہ مضمون اپنے اختتام کو پہنچا ، اس موضوع پر اردو اور عربی زبان میں میرا ایک مستقل رسالہ بھی ہے جس میں بعض امور کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے مگر تاحال یہ رسالہ طبع نہیں ہوا ،اردو اور نہ ہی عربی رسالہ۔