الخميس، 10 مايو 2012

قیامت کے دن لوگوں کو کیا ا ن کی ماﺅں کے نام سے بلایا جا ئے گا ؟

  فضيلة الشيخ عبدالرؤوف بن عبد الحنان الاشرفى

بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے آباء یا ان کی ماﺅں کے نام سے بلایا جائے گا؟ لوگوں کی طرف سے اس کے بارے میں بکثرت سوال کے پیش نظر اس پر قدرے تفصیل سے لکھنا مناسب سمجھا گیا۔

درست یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپوں ہی کے نام سے بلایا جائے گا، ماﺅں کے نام سے نہیں جیسا کہ عام لوگوں میں مشہور ہے بلکہ بعض علماءبھی اس طرف گئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: باب ما یدعی الناس بآبائھم یعنی یہ بیان کہ لوگوں کو ان کے آباءکے ناموں سے بلایا جائے گا۔ اس باب کے تحت وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی درج ذیل حدیث لائے ہیں: ” ان الغادر ینصب لہ لواءیوم القیامة ‘ فیقال : ھذہ غدرة فلان بن فلان….( شرح البخاری لابن بطال : 9/354و ایضا فتح الباری: 10/563)
” خائن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، سو کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی خیانت ہے“۔
 ابن بطال اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ” ھذہ غدرة فلان بن فلان “ میں ان لوگوں کے قول کا رد ہے جن کا خیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماﺅں کے نام سے بلایا جائے گا کیوں کہ اس میں ان کے باپوں پر پردہ پوشی ہے اور یہ حدیث ان کے اس قول کے خلاف ہے۔“(حوالہ سابق)
اس حدیث کی بنا پر دیگر علماءنے بھی اس قول کے قائلین کا رد کیا ہے۔ اس کے بارے میں ایک صریح حدیث بھی ہے مگر وہ اسناد ی اعتبار سے ضعیف ہے اور وہ حدیث ابو الدرداء   رضی اللہ عنہ سے بایں الفاظ مروی ہے: انکم تدعون یوم القیامة باسمائکم واسماءآبائکم فاحسنوا اسمائکم۔”یقینا تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے نام سے بلائے جاﺅگے چنانچہ تم اپنے اچھے اچھے نام رکھو“( اس حدیث کو امام احمد (5/194) ابوداﺅد (4948) ابن حبان (7/528) اور بغوی (شرح السنة: 12/32) نے عبداللہ بن ابی زکریا کی سند سے ابوالدرداءرضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس کی سند ضعیف اس لیے ہے کہ ابن زکریا نے ابودرداءرضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے جیساکہ امام ابوداﺅد اورحافظ ابن حجرنے فتح الباری(10/577) میں کہا ہے اور حافظ منذری نے مختصر السنن (7/571)میں کہا ہے کہ ان کا ابودرداءرضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔)
جن بعض علماءنے کہا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کو اس کی ماں کے ناموں سے بلایا جائے گاباپ کے نام سے نہیں۔ ان کے درج ذیل دلائل ہیں۔
پہلی دلیل: قولہ سبحانہ و تعالی: یوم ندعوکل اناس بامامھم (الاسراء: (7” جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔“ محمد بن کعب نے (بامامھم)کی تفسیر میں کہا ہے: قیل یعنی:” بامھاتھم کہا گیا ہے ’یعنی ان کی ماﺅں کے ناموں سے ‘۔ ان کے اس قول کو امام بغوی اور امام قرطبی نے ذکر کیاہے اور کہا ہے کہ اس میں تین حکمتیں ہیں:
 ٭ عیسی علیہ السلام کی وجہ سے
 ٭ حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کے شرف کی بنا پر
٭ اولاد زنا کی عدم رسوائی کی وجہ سے ۔( معالم التنزیل للبغوی: 5/ 110 اور الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:5/628 )
مگرمحمد بن کعب کا یہ قول باطل ہے جیسا کہ علامہ شنقیطی نے ان کے اس قول کا رد ان الفاظ میں کیا ہے: قول باطل بلا شک ، وقد ثبت فی الصحیح من حدیث ابن عمررضی اللہ عنھما۔ (اضواءالبیان لمحمد الامین الشنقیطی2/322)
”یہ قول بلا شک باطل ہے۔ صحیح میں ابن عمر کی حدیث سے ثابت ہے “اس کے بعد انہوں نے ابن عمر کی مذکورہ حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح زمخشری نے بھی امام کی تفسیر   ” امھات“ سے کی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:و من بدع التفسیر ان الامام جمع الام ، وان الناس یدعون بامھاتھم ۔۔۔۔۔ (تفسیر الکشاف: 2/369)- ”انوکھی تفسیر وں میں سے ایک تفسیر یہ ہے کہ” امام “ ام کی جمع ہے اورلوگوں کوقیامت کے دن ان کی ماﺅں کے نام سے پکارا جائے گا….“
زمخشری کی اس انوکھی تفسیر کا رد امام نا صرالدین احمد بن منیر مالکی نے ان الفاظ میں کیا ہے:
و لقد استبدع بدعا لفظا و معنی ، فان جمع” الام “ المعروف الامھات“ ، اما رعایة عیسی (علیہ السلام ) بذکر امھات الخلائق لیذکر بامہ فیستدعی ان خلق عیسی (علیہ السلام ) من غیر اب غمیزة فی منصبہ ، وذلک عکس الحقیقة ، فان خلقہ من غیر اب کان لہ آیة، و شرفا فی حقہ واللہ اعلم ( الانتصاب فیما تضمنہ الکشاف من الاعتزال: 2/369 بھامش الکشاف)۔
 ” زمخشری نے لفظی اور معنوی بدعت ایجاد کی ہے،کیوں کہ ام کی معروف جمع ” امھات“ ہے۔رہا عیسی (علیہ السلام ) کی رعایت کی خاطر لوگوں کو ان کی ماﺅں کے ساتھ ذکرکرناتاکہ ان کی (عیسی علیہ السلام )کی ماں کا ذکر کیا جائے تو یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ عیسی (علیہ السلام ) کی بغیر باپ کے خلقت سے ان کے منصب پر حرف آتا ہے او ریہ حقیقت کے برعکس ہے کیوں کہ ان کا بغیر باپ کے پیدا کیا جانا، ان کے لیے معجزہ اور ان کے حق میں شرف ہے و اللہ اعلم“۔
بعض دیگر علماءنے مذکورہ تمام حکمتوں کا رد کیا ہے اور بعض نے اس رد کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔    (تفسیر روح المعانی للآلوسی: 15/(121 ۔
 واضح رہے کہ ” امام“ کی معتبر مفسرین نے چار تفسیریں کی ہیں مگر ان میں سے سب سے معتبر تفسیر یہ ہے۔ کہ ” امام“ سے مراد آدمی کا اعمال نامہ ہے کیوں کہ (یوم ندعوکل اناس بامامھم ) کے بعد اللہ عزو جل نے فرمایا ہے ۔ ( فمن اوتی کتابہ بیمینہ) حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیرکو اختیار کیا ہے اور علامہ شنقیطی نے ان کی تائید کی ہے۔  (تفسیرابن کثیر :5/127 و اضواءالبیان: 2/322)
فائدہ: امام کی تفسیر نبی اور پیشوا سے بھی کی گئی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قال بعض السلف:ھذا اکبر شرف لاصحاب الحدیث لان امامھم النبیا (تفسیرابن کثیر :5/126)- بعض سلف نے کہا ہے کہ یہ اہل حدیث کے لیے بہت بڑا شرف ہے  کیوں کہ ان کے امام نبی ا ہیں۔
دوسری دلیل: بعض واہی ، سخت ضعیف قسم کی روایات ہیں جو درج ذیل ہیں :
1۔ حدیث انس ص جس کے الفاظ یہ ہیں: یدعی الناس یوم القیامة بامھاتھم سترا من اللہ عز وجل علیھم (ابن عدی: 1/336 اور ان سے ابن جوزی نے الموضوعات (3/248) میں روایت کیا ہے اور اس کو علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال (1/177) میںابن عدی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اس میں بامھاتھم کی بجائے ” باسماءامھاتھم“ ہے) ۔
 ”روز قیامت لوگوں کو اللہ عز وجل کی طرف سے ان پر  پردہ پوشی کی وجہ سے ان کی ماﺅں کے ساتھ بلایا جائے گا۔“ مگر اس حدیث کی سند ضعیف ہے( اس حدیث کی سند اسحاق بن ابراہیم کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔)
جلال الدین سیوطی کا اس حدیث کی تقویت کی طرف رجحان ہے چنانچہ انہوں نے اس حدیث پر ابن جوزی کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے :
” قلت : صرح ابن عدی بان الحدیث منکر فلیس بموضوع ، ولہ شاہد من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ اخرجہ الطبرانی“ (التعقبات علی الموضوعات 51)
 ” میں کہتا ہوں ابن عدی نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث منکر ہے ۔چنانچہ یہ موضوع نہیں اور اس کا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ایک شاہد ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔“ قلت : اس حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں : ” ان اللہ تعالی یدعو الناس یوم القیامة باسمائھم سترا منہ علی عبادہ “ ( طبرانی نے المعجم الکبیر(11/122) میں روایت کیا ہے ) یقینا اللہ تعالی قیامت کے دن لوگوں کو ان پر پردہ پوشی کی خاطر ان کے ناموں سے بلائے گا“ مگر یہ حدیث درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر شاہد بننے کے قابل نہیں : اس میں لوگوںکو ان کے ناموں سے بلائے جانے کا ذکر ہے ماﺅں کے ناموں سے بلائے جانے کا ذکر نہیں ۔ اس کی سند سخت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ (کیوں کہ اس کی سند میں اسحاق بن بشیرابوحذیفہ بخاری ہے جو متروک بلکہ کذاب ہے۔ البانی نے اس کو الضعیفہ (434) میں موضوع کہا ہے )۔
 تنبیہ : حافظ ابن حجر نے” فتح الباری“ ( 10/563) میں ابن بطال کا یہ قول: فی ہذا الحدیث رد لقول من زعم انھم لا یدعون یوم القیامة الا بامھاتھم سترا علی ابائھم ۔ (شرح البخاری لابن بطال : 9/354) ”اس حدیث میں ان لوگوں کے قول کا رد ہے جن کا خیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماﺅں کے نام سے بلایا جائے گا کیوں کہ اس میں ان کے باپوں پر پردہ پوشی ہے۔“ ذکر کرنے کے بعد کہا ہے: ” قلت : ھو حدیث اخرجہ الطبرانی من حدیث ابن عباس وسندہ ضعیف جدا ، واخرج ابن عدی من حدیث انس مثلہ ، وقال : منکر اوردہ فی ترجمة اسحاق بن ابراہیم الطبری“۔ ( فتح الباری ( 10/563)
” میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ ابن عدی نے اس جیسی حدیث انس سے بھی روایت کی ہے اور اسے منکر غیر صحیح کہا ہے۔ انہوں نے اس کو اسحاق بن ابراہیم طالقانی طبری کے ترجمے میں روایت کیا ہے۔ “ ۔
 قلت: حدیث ابن عباس میں ” باسمائھم “ ہے ” بامھاتھم نہیں۔ اسی طرح ان کا ”حدیث انس مثلہ “ بھی کہنا درست نہیں کیوںکہ اس حدیث میں بامھاتھم“ ہے۔ یہی وہم علامہ ابوالطیب عظیم آبادی سے بھی ہواہے کہ انہوں نے حدیث  ابن عبا س کو لفظ ”بامھاتھم “ سے ذکر کیا ہے۔نیز ان سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حدیث ابن عباس کو طبرانی نے بسند ضعیف روایت کیا ہے جیسا کہ ابن قیم نے حاشیة السنن میں کہا ہے جبکہ ابن قیم رحمہ اللہ نے حدیث ابن عباس کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ  انہوں نے حدیث ابوامامہ کا ذکر کیاہے جو عنقریب آرہی ہے۔   (عون المعبود:8/283 اور تہذیب السنن: 7/250)
 2۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنھما: اس حدیث کا ابھی حدیث انس کے ضمن میں ذکر ہوا اور یہ بھی بیان ہوا کہ دو وجوہ کی بنا پر اس حدیث سے حجت لینا درست نہیں ۔
 3۔ حدیث ابو امامہ :حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں میت کو دفن کر دینے کے بعد اسے تلقین کرنے کا ذکر ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
 اذا مات احدکم من اخوانکم فسویتم التراب علی قبرہ فلیقم احدکم علی راس قبرہ ثم لیقل : یا فلاں بن فلانة ‘فانہ یسمعہ ،ولا یجیب ثم یقول : یا فلاں بن فلانة۔۔۔۔ وفی آخرہ ۔ فقال رجل : یا رسول اللہ فان لم یعرف امہ قال : فینسبہ الی حواء، یا فلاں بن حواء (طبرانی نے المعجم الکبیر(8/298/حدیث نمبر: 8989) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔)
” جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی مرجائے اور تم اس کی قبر پر مٹی کو برابر کرلو تو تم میںسے کوئی ایک اس کی قبر کے سر پر کھڑا ہو ، پھر کہے ، اے فلاں ، فلاں عورت کے بیٹے ،سویقینا وہ اس کی بات کو سنتا ہے لیکن جواب نہیںدے پاتا۔پھر کہے اے فلاں ،فلاں عورت کے بیٹے ،، (اور اس حدیث کے آخر میں ہے) ایک آدمی نے سوال کیا ! یا رسول اللہ ! اگر وہ اس کی ماں کو نہ جانتا ہو؟ فرمایا ، وہ اس کو حواءکی طرف منسوب کرے کہے، اے فلاں حواءکے بیٹے “ مگر اس حدیث سے حجت لینا درست نہیں کیوںکہ یہ سخت ضعیف ہے(طبرانی نے سعیدبن عبد اللہ الاودی کی سند سے ابو امامہ سے روایت کیا ہے اور حافظ ہیثمی نے کہا ہے وفی اسنادہ جماعة لم أعرفہ (مجمع الزوائد:3/ (48 اس کی سند میں ایک جماعت ایسی ہے جن کو پہچان نہیں سکا۔ یعنی ان کو ان کے تراجم نہیں ملے)۔
 ابن القیم نے اس حدیث کو اس لیے بھی رد کیا ہے کہ صحیح احادیث کے خلاف ہے چنانچہ لکھتے ہیں:” ولکن ھذا الحدیث متفق علی ضعفہ ، فلا تقوم بہ حجة فضلا عن أن یعارض بہ ما ھو أصح منہ“ ( تہذیب السنن: 7/250) لیکن اس حدیث کے ضعف پر اتفاق ہے لہذا اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ اس کو صحیح حدیث کے مقابلے میں لایا جائے۔
 قلت: اس حدیث کا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی رد ہوتا ہے۔ جس میں ہے کہ رسول اللہ ا جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو فرماتے : ” استغفرو ا لاخیکم   وسلوا لہ التثبیت ، فانہ الآن یسال“ (ابوداﺅد: 3221 الحاکم: 1/ 370 اس کی سند حسن درجے کی ہے اور امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام ذھبی نے ان کی موافقت کی ہے)
 ” اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا۔“
اس حدیث معلوم ہوا کہ اس موقع پر میت کے لیے استغفار اور ثابت قدمی کا سوال کیا جائے گا نہ کہ اس کو تلقین کی جائے گی۔ ابن علان نے اس حدیث کو حدیث ابی امامہ کے شواہد میں ذکر کيا ہے۔ (الفتوحات الربانیہ : 4/196)
 اور کس قدر عجیب بات ہے کیوں کہ استغفار ،ثابت قدمی اور تلقین میں بہت فرق ہے اور صحیح احادیث سے جو تلقین ثابت ہے وہ قریب الموت آدمی کے بارے میں ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ( صحیح مسلم: 6/219 ۔ 230) ” اپنے مردوں کو( قریب المرگ لوگوں کو) لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو“۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی قابل اعتماد حدیث ایسی نہیں ہے کہ جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ روز قیامت آدمی کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا بلکہ عبد اللہ بن عمر ؓ کی صحیح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اس کے باپ کے نام سے بلایا جائے گا۔بعض علماءنے ان روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے وہ یوں کہ جس حدیث میں باپ کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے وہ صحیح النسب آدمی کے بارے میں ہوا اور جس میں ماں کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے وہ دوسرے آدمی کے بارے میں ہے۔ یا یہ کہ کچھ آدمی لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے اور کچھ لوگوں کو ان کے ماں کے نام سے بلایا جائے گا۔ اس جمع یا تطبیق کو عظیم آبادی نے علقمی سے نقل کیاہے۔ (عون المعبود: 8/283 ) بعض نے ایک دوسرے طریقے سے تطبیق دی ہے ،وہ یہ کہ خائن کو اس کے باپ کے نام سے اور غیر خائن کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا اور اس کی جمع کو ابن علان نے شیخ زکریا سے نقل کیا ہے۔ (الفتوحات الربانیہ : 6/104) بعض نے حدیث ابن عمرر ضی اللہ عنہ کو اس پر محمول کیا ہے کہ یہ اس آدمی کے بارے میں ہے ۔ جو ولد الزنا نہ ہو یا لعان سے اس کی نفی نہ کی گئی ہو۔ (الفتوحات الربانیہ : 6/104) مگر یہ سب تکلفات ہیں کیوں کہ جمع اور تطبیق کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب دونوں طرف کی روایات صحیح ہوتیں جب کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف جو روایات ہیں وہ انتہائی ضعیف قسم کی ہیں۔ نیز اصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے باپ ہی کے نام سے پکارا جائے گا ، ابن بطال لکھتے ہیں:
والدعاءبالآباءاشد فی التعریف وابلغ فی التمیز  وبذلک نطق القرآن و السنة۔ (شرح البخاری لابن بطال : 9/354) ” باپوں کے نام سے بلانا پہچان میں زیادہ واضح اور تمیز میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و سنت بھی اسی پر شاہد ہے۔