الثلاثاء، 11 سبتمبر 2012

حدیث معاذ بن جبل رضى الله عنه کیا صحیح سندوں سے مروی حدیث ہے ؟

شیخ عبدالروؤف بن عبدالحنان حفظہ اللہ نے ماہنامہ مصباح کے کالم ”صدائے عرش“کے تحت چھپے ایک مضمون میں وارد حدیث ’حدیث معاذ‘ پر استدراک فرمایا اور تفصیل سے اس کا حکم قلمبند کرکے ہمیں ارسال کیا ہے، ذیل کے سطورمیں ہم یہ استدراک پیش کرتے ہوئے شیخ موصوف کے شکر گذار ہیں اورآئندہ بھی ہم ان کے اور دیگر قارئین کے استدراک کا خیرمقدم کریں گے ۔
ماہنامہ مصباح شمارہ 41 جون 2012ء بمطابق رجب شعبان1433ھ میں تقریباً دوہفتہ قبل ایک کالم بعنوان ”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فیصلہ حرف آخر ہے“ نظر سے گذرا ۔ اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فیصلہ حرف آخر ہے ،جس طرح آپ کا فیصلہ حرف آخر ہے اسی طرح آپ کے فیصلے کو قبول کرنا بھی ہر مسلمان کا فرض ہے ۔
 اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
(ترجمہ)”تمہارے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک اپنے اختلافات میںآپ کو حکم تسلیم نہ کرلیں، پھر آپ جو فیصلہ صادر کریںاس کے بارے میں اپنے دلوںمیں کسی قسم کی تنگی بھی محسوس نہ کریں اوراس کے سامنے پوری طرح سرتسلیم خم نہ کریں ۔
مذکورہ کالم میں جو بات قابل ملاحظہ ہے وہ یہ کہ فاضل کالم نگار نے اس میں حدیثِ معاذ بن جبل رضى الله عنه  جس میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جب ان کو یمن کا حاکم بناکر بھیج رہے تھے تو پوچھا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کرو  گے ....الی آخر الحدیث کے بارے میں کہا ہے کہ”مسند احمد، ابوداود، ترمذی اورابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہے
 فاضل کالم نگار کے اس کلام پر درج ذیل ملاحظات ہیں :
انہوں نے اس حدیث کوابن ماجہ کی طرف بھی منسوب کیا ہے جبکہ جس سیاق سے انہوںنے اس حدیث کو ذکر کیا ہے اس سیاق سے یہ حدیث ابن ماجہ میں نہیں ہے بلکہ اس میں اس سیاق سے ہے : لا تقضین ولا تفصلن الا بما تعلم ، وإن شکل علیک أمر فقف حتی تبینہ أوتکتب إلی فیہ (ابن ماجہ حدیث 55، المقدمة)
یعنی اسی چیز کے بارے میں فیصلہ کروجس کا تم کو علم ہو اوراگر کسی چیز کے بارے میں کوئی اشکال ہوتو توقف اختیار کرو،یہاں تک کہ وہ تمہارے لےے واضح ہوجائے یا اس کے بارے میں مجھے لکھو “۔
یہ ہے ابن ماجہ کا سیاق اور اس کی سند انتہائی ضعیف ہے ،اس میں ایک راوی محمدبن سعید بن حسان المصلوب ہے ، حافظ ابن حجر نے تقریب میں اس کے بارے میں کہا ہے : ”کذبوہ “محدثین نے اس کو کذاب کہا ہے ۔ امام بوصیری اس سند کے بارے میں لکھتے ہیں : ھذا اسناد ضعیف محمدبن سعید ھو المصلوب اتھم بوضع الحدیث مصباح الزجاجة فی زوائد ابن ماجہ (حدیث20) ”یہ سند ضعیف ہے ،محمد بن سعید جوکہ مصلوب کے لقب سے مشہور ہے اس پر احادیث گھڑنے کی تہمت لگائی گئی ہے “۔
 ان کا یہ کہنا کہ مسند احمد ،ابوداود اورترمذی میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہے دواعتبار سے محل نظر ہے :
الف: ان کتب میں اس کی ایک ہی سند ہے اوروہ ہے شعبہ بن حجاج کی سند ۔
ب: مسند احمد، ابوداؤد،اورترمذی کی ایک روایت میں بعض راویوں نے اس حدیث کوشعبہ سے مرسل سند سے روایت کیا ہے اورمرسل سند ضعیف ہوتی ہے۔ اسی طرح شعبہ کے علاوہ ابواسحاق شیبانی کی سند سے بھی یہ حدیث مرسلاً ہی آئی ہے بلکہ معضل سند سے آئی ہے (۱) اوراس سند سے اس کو ابن ابی شیبہ نے مصنف (4/543/22989) میں اورابن حزم نے الاحکام (6/35) میں روایت کیاہے ۔
 شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’احادیث ضعیفہ ‘(حدیث881) میں اس حدیث کی مفصل تخریج کی ہے مگر شیبانی والی سند ان پر مخفی رہی ہے ، اس سند کا ذکر راقم نے ”روضة الناظر“لابن قدامہ “(2/338/259) کی تخریج میں کیا ہے جو شرکہ غراس کویت میں زیرطبع ہے ۔
بعض علماء اگرچہ اس حدیث کے ثبوت کی طرف گئے ہیں لیکن دلائل کے اعتبار سے درست یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، کبارائمہ ومحدثین نے اس کوضعیف کہا ہے ان کا ذکر ہم خوف طوالت کے باعث احادیث ضعیفہ کے حوالے سے کرتے ہیں : 1۔ بخاری 2۔ ترمذی 3۔ عقیلی 4۔ دارقطنی 5۔ ابن حزم 6۔ ابن طاہر 7۔ ابن جوزی 8۔ ذہبی 9۔ سبکی 10۔ ابن حجر (ملاحظہ ہو احادیث ضعیفہ2/285)
قلت : اما عبدالحق اشبیلی (متوفی ۲۸۵ھ) نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ،چنانچہ وہ الاحکام الوسطی (3/342) میں لکھتے ہیں : ھذا الحدیث لایسند ، ولایوجد من وجہ یصح ”یہ حدیث مسند نہیں ۔یعنی مرسل ہے ۔اورنہ یہ صحیح سند سے پائی جاتی ہے “۔
اس حدیث کی سند سے قطع نظر اس پر معنوی اعتبار سے بھی کلام کیاگیا ہے وہ یہ کہ یہ حدیث کتاب وسنت میں تفریق کرتی ہے جبکہ واجب یہ ہے کہ بیک وقت کسی مسئلہ کو کتاب وسنت دونوں میں دیکھا جائے ،کیونکہ سنت قرآن کی تفیسر ہے ،اس کے لیے سورہ نحل کی آیت (44) اورسورہ قیامہ کی آیت (18۔19) کودیکھاجائے ۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق